بارہ سنگھا
*بارہ سنگھا*
امام کمال الدین الدمیریؒ کی کتاب *" حیات الحیوان "* اور الایل یعنی بارہ سنگھا
=================
الایل یعنی بارہ سنگھا سے متعلق امام کمال الدین دمیریؒ متوفیٰ ۸۰۸ ہجری نے اپنی کتاب *" حیات الحیوان "* میں کافی دلچسپ معلومات رقم کی ہے۔ ظاہر ہے کہ امام دمیری کے زمانے تک یہ ساری معلومات مشاہدے پر مبنی رہی ہوگی کہ اس وقت تک سائنس نے موجودہ ترقیوں کو نہ پایا تھا۔ سو مناسب معلوم ہوا کہ اس معلومات کا کچھ حصہ یہاں نقل کردیا جائے تاکہ فیس بک پر موجود ماہرِ حیاتیات اس کی تصحیح و تغلیط کرسکیں۔ کتاب کے اردو مترجم نے عربی کے لفظ الایل کا ترجمہ بارہ سنگھا کیا ہے غالباً اس کی وجہ امام دمیریؒ کی بیان کردہ وہ معلومات ہے جو کہ جانور کے سینگوں سے متعلق امام دمیری نے نقل کی ہے واللہ اعلم۔ امام دمیریؒ لکھتے ہیں کہ یہ جانور جنگلی گائے کے مشابہ ہوتا ہے ۔ یہ اس قدر باحوصلہ ہوتا ہےکہ اگر اسکو شکاری کی موجودگی کا آس پاس پتہ چلے جائے تو یہ پہاڑ کی چوٹی سے بھی چھلانگ لگانے میں دریغ نہیں کرتا۔ اتنی اونچائی سے چھلانگ لگانے کے باوجود اسکو چوٹ نہیں لگتی۔ اس کے سینگ میں جتنی گرہیں ہوتی ہیں، اتنے سال اس کی عمر ہوتی ہے۔
الایل کو مچھلی سے قدرے محبت و انس ہوتا ہے اور اسی سبب یہ مچھلی دیکھنے کو کبھی کبھی دریا کنارے چلا جاتا ہے۔ مچھلیاں بھی اس سے مانوس ہوتی ہیں اور اس کو دیکھ کر خشکی کے قریب آجاتی ہیں۔ مچھلی کے شکاری اس چیز سے واقف ہوتے ہیں، سو جب ان کو مچھلی کا شکارکرنا ہوتا ہے تو وہ بارہ سنگھا کی کھال پہن کر دریا کے کنارے بیٹھ کر مچھلی کا شکار کرلیتے ہیں۔ بارہ سنگھا سانپ کھانے کا عادی ہوتا ہے چنانچہ اسے جہاں کہیں سانپ نظر آتا ہے، یہ اسے نگل لیتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سانپ اسے ڈس لیتا ہے۔ سانپ کے ڈسنے سے اس کی آنکھ سے دو چھوٹے نقرہ کے برابر خون نکلتا ہے جس کی وجہ سے اس کی آنکھ میں انگلی برابر گڑھا پیدا ہوجاتا ہے جس میں انگلی جانے جتنی جگہ ہوتی ہے۔ لوگ اس خون سے سانپ کے ذہن کا تریاق بناتے ہیں۔ جب اس تریاق کو جس کو تریاقِ حیوانی کہا جاتا ہے ، سانپ یا بچھو کے ڈسنے کی جگہ پر لگایا جاتا ہے تو بے حد فائدہ دیتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے زہر پی لیا ہو اور اسی وقت اس کو تریاق پلا دیا جائے تو وہ زہر کے اثر کو ذائل کردیتا ہے۔اس قسم کا بارہ سنگھا اکثر ہندوستان، سندھ اور فارس میں پایا جاتا ہے۔
جب یہ بارہ سنگھا دو سال کا ہوتا ہے تو اس کی سینگیں آنا شروع ہوتی ہیں۔ اس کی سینگ بالکل میخ کی طرح ہوتی ہیں جس میں اس کے پیدا ہونے کے تیسرے سال اور سینگ اگنے کے ایک سال بعد شاخیں بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس طرح برابر چھ سال تک شاخ در شاخ نکلتی رہتی ہیں یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے کہ اس کی دونوں سینگیں دو گھنے درختوں کی شاخوں کی طرح معلوم ہونے لگتی ہیں۔ ارسطو نے اپنی کتاب *" کتاب الحیوان "* جو کہ حیوانات سے متعلق ارسطو کے اُنیس (۱۹) مقالات پر مشتمل ہے اور جس کا ابن بطریق نے یونانی سے عربی میں ترجمہ کیا تھا لکھا ہے کہ بارہ سنگھا ہر سال اپنے سینگ جھاڑ دیتا ہے اور پھر اس کے نئے سینگ نکل آتے ہیں۔ یہ سانپ کھانے کا شوقین ہوتا ہے اور ان کو دم کی طرف سے نگلنا شروع کرتا ہے۔ لوگ اس کے سینگوں سے موذی جانوروں کو بھگاتے ہیں۔ اس کے سینگوں میں ولادت میں آسانی کے لئے تاثیر رکھی گئی ہے۔ حاملہ عورتیں اس سے استفادہ کرتی ہیں۔ نیز اس کے سینگ کا کچھ حصہ اگر جلا کر شہد میں ملا کر چاٹ لیا جائے تو پیٹ کے کیڑے باہر نکل جاتے ہیں۔
بارہ سنگھا کی کئی خصلتوں کو عربی شعراء نے اپنی شعروں میں نظم کیا ہے جن میں سے ایک وصف یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر اس نے سانپ کھالیا ہو اور شدید گرمی کے باعث پیاسا ہو تو یہ پانی کی تلاش شروع کردیتا ہے۔ پانی مل بھی جائے تو پانی نہیں پیتا بلکہ برابر سانس لیتا رہتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ اس حالت میں پانی پی لے تو پانی اور زہر پیٹ میں ایک ساتھ جمع ہوجائیں جس سے اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہٰذا سانپ کھانے کے بعد وہ کافی دنوں تک پانی نہیں پیتا اور زہر کے اثرات زائل ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ جب زہر کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں تب یہ پانی پیتا ہے۔
https://chat.whatsapp.com/FHe1CFnxGhAI9go7qUppjX
*-: سینگوں کے مختلف فوائد :-*
لوگ اس کے سینگ استعمال کرتے رہے ہیں۔ اگر کسی جگہ اس کے سینگوں کی دھونی دی جائے تو تمام کیڑے مکوڑے اور موذی جانور بھاگ جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر اس کے سینگوں کو جلا کر اس کی راکھ دانتوں میں لگائی جائے تو دانتوں کی زردی کو دور کرکے دانتوں کے گڑھوں اور جڑوں کو بھردے گی۔ اگر اس کے سینگ کے بعض اجزاء کو گلے میں باندھ کر لٹکایا جائے تو جب تک گلے میں رہیں گے لٹکانے والے کو نیند نہیں آئے گی۔ بارہ سنگھا کا عضو تناسل جو کہ بقول ارسطو بغیر گوشت و ہڈی کا ایک پٹھا یعنی مسل ہوتا ہے کو خشک کرنے کے بعد پیس کر پانی میں ملا کر پیا جائے تو انسانی منی میں ہیجان اور تیزی پیدا ہوتی ہے اور انسان کے عضو تناسل کی طرف خون کا بہاؤ بڑھتا ہے جس سے اس میں سختی آجاتی ہے۔ امام دمیری یہ بھی لکھتے ہیں کہ بارہ سنگھا کا خون پینے سے مثانہ کی پتھری ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے اور پیشاب کے راستے باہر نکل جاتی ہے۔ ویسے حیرت ہے کہ امام دمیری نے یہ بات کیوں لکھی جبکہ اسلام میں خون حرام ہے۔ البتہ بارہ سنگھا بذات خود حلال جانور ہے جس کو بکرے پر قیاس کرکے ماکول اللحلم مانا جاتا ہے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ شافعی محدث و فقیہ امام عبدالکریم بن ابو فضل محمد الرافعی القزوینیؒ متوفیٰ ۶۲۳ ہجری نے الایل یعنی بارہ سنگھا کا ذکر باب الاطعمہ میں نہیں کیا۔ اس کے بجائے آپ اسکا ذکر باب الربا یعنی سود کے باب میں لائے ہیں۔ جہاں آپ نے اس کے حلال ہونے سے متعلق تو کوئی کلام نہیں کیا البتہ یہ تصریح کی ہے کہ ہرن مع بارہ سنگھا کا معاملہ بالکل اسی طرح ہے جیسے بھیڑ اور بکری کا البتہ دونوں کو ایک دوسرے کے بدلے میں فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ واللہ اعلم۔ البتہ ان کا بارہ سنگھا کے معاملے کو بھیڑ اور بکری پر قیاس کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بارہ سنگھا بھی بھیڑ اور بکری کی طرح حلال و ماکول اللحم ہیں۔ واللہ اعلم
اس بارے میں مزید معلومات
*-: بارہ سنگھے کا سینگ :-*
بارہ سنگھا مشہور جنگلی جانور ہے۔ اس کا سینگ پنسار اسٹور سے آسانی سے مِل جاتا ہے، کئی بیماریوں میں مفید دوا ہے۔
*-: فوائد و استعمال :-*
1. پسلی کے درد میں خصوصیت سے فائدہ دیتا ہے۔ اس کو کسی سخت پتھر پر تھوڑا پانی ڈال کر گھِسیں، جب گھِسا جائے تو اس میں سات کالی مِرچیں شامِل کر کے پیسیں اور ایک چمچ میں لے کر گرم کر کے درد والی جگہ لگائیں اور خشک ہونے پر آگ سے سینکتے رہیں۔ ایک دفعہ یا دو دفعہ لیپ سے درد دُور ہو جائے گا۔
2. بارہ سنگھے کے سینگ کو بکری کے دودھ میں گھِس کر سلائی کے سرے پر لگا کر چند روز برابر آنکھ پر لگائیں اس سے جالا پھولا کٹ جائے گا، آنکھوں کی کھجلی دُور ہو جائے گی۔
3. بارہ سنگھے کا سینگ کا وزنی ٹکڑا 24 گرام لے کر اس پر اجوائن اور شورہ قلمی 12, 12 گرام پانی میں پیس کر لگائیں اور خشک ہونے پر ایک کلو کوئلوں کی آگ پر رکھیں۔ سفید کشتہ ہو جائے گا اور ایک بار میں سفید نہ ہو تو دوبارہ اسی طرح کریں۔ یہ کشتہ ذات النجب (پسلی کا درد)، ذات الرّیہ (نمونیا) اور بلغمی کھانسی، دمہ میں مفید ہے۔ 125 مِلی گرام کشتہ شہد خالص دو چمچ میں مِلا کر چٹائیں۔ یا اتنی مقدار خمیرہ گاؤزبان سادہ ایک چائے کے چمچ برابر میں ملا کر چٹائیں :-
==================================
آخر میں دُعا ہے کہ اللہ کریم اپنے رسولِ کریم اور اُن کی آلِ عظیم کے واسطے سب مریضوں کو شِفائے کاملہ عطا فرمائے ، آمین-
==============================================
*الله پاک ہم سب کی جان، مال اور صحت کی حفاظت فرمائے،*
*(آمین)*
==================================
اللہ ہمیں اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ سے تبدیلی کا آغاز کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
=================================
پوسٹ کو صدقہ جاریہ سمجھ کر شئیر کر دیں
==================================
(اس تحریر کا مقصد عوام الناس تک جڑی بوٹیوں کے فوائد پہنچانا ہے. باقاعدہ استعمال سے پہلے اپنے مستند معالج سے مشورہ کر لیں. شکریہ).
==================================
تبصرے