RWM07072023_ دھوکہ

 فراڈ ۔۔۔۔۔


بہت سے امراض میں مریضوں کےساتھ فراڈ کیا جاتا ہے ۔میں اس پر بہت سے ارٹیکلز پڑھ چکاہوں ۔اور آنے والے مریضوں کو ترغیب بھی دیتارہتا ہو۔ یہ رپورٹ آپ بھی پڑھ لیجے


(اس مضمون کو پڑھنے کے بعد یقینی طور پر سمجھ میں آجاٸے گا۔اور آپ یہ جان کرحیران ھوں گے 

کہ کیسے آپ کو ”دو دونی آٹھ“ کے اس مکڑ جال میں ھمیشہ کیلٸے پھنسا دیا جاتا ھے۔)

    میں آپ کو 1975 کے اس زمانے میں لے جاتا ھوں جہاں دنیا کی ٹاپ دس کمپنیوں میں سے دوسرے نمبرکی کمپنی MERCK کی بات کریں گے۔اس کمپنی کے CEO کا نام تھا ”HENRY GODSON“۔جس کا کہنا تھا:

   ”انکے دل میں ایک ہی تکلیف ھیکہ دنیا میں صرف ”مریض“ ھی انکی کمپنی کی تیار کردہ پروڈکٹ کا استعمال کر پاتے ھیں“۔

   ”وہ اس دن کا خواب دیکھ رھے تھے جب وہ دنیا کے تمام صحت مند طبقے کو بھی اپنی پروڈکٹس بیچ سکیں گے“۔

   اس کا مطلب یہ ھوا کہ وہ چاھتے تھے: ”ساری دنیا بیمار پڑ جاٸے یا بیمار نہ بھی پڑے پھر بھی انکے پروڈکٹس ضرور بکیں“۔

   جیسے کہ: ”چیونگم“۔ دنیا میں ھر انسان اسے چبانا پسند کرتاھے، چاھے وہ چھوٹا ھو یا بڑا۔بیمار ھو یا صحتمند۔

   اسی طرح دنیا کی سبھی دوا کمپنیاں یہی چاھتی ھیں کہ:

  ”انکی دواٸیں دنیا کے سبھی لوگ باربار لیں۔“ 

یہ ثابت کرنے کے لٸےآپ کچھ مثالیں دیکھٸے:

   فرض کیجٸے، کہ آپ کو نیند نہیں آرہی ھے۔ بھلے ھی اس کا سبب کچھ بھی ھو۔لیکن آپ نیند لانے والی دوا کھا لیتے ھیں۔آپ لگاتار اسی عمل کو جاری رکھتے ھیں اور کچھ عرصہ بعد نوبت یہ آ جاتی ھیکہ آپ کو نیند کی دوا کھاٸے بغیر نیند آنی ھی بند ھو جاتی ھے۔

   اسی طرح، اگر آپ کو depression ھے تو کچھ دن تک ”ڈپریشن“ کی دوا کھانے کا اثر ایسا ھوگا کہ آپ انو”گولیوں“ کے نہ کھانے پر خود کو ”ڈپریشن“ سے گھِرا پاٸیں گے۔ایسا لگے گا کہ آپ کی زندگی میں کوٸی کمی سی ھے۔اسی طرح، اگر آپ کو ڈاٸبٹیز کی شکایت نہیں ھے اور پھر بھی آپ ”ڈاٸبٹیز“ کنٹرول کرنے کیلٸے دوا لیتے ھیں تو کچھ ھی دنوں میں آپ اس پر منحصر ھو جاٸیں گے۔

   یہ سب ”کورے قصے“ نہیں ھیں۔GLAXO SMITHKLINE نام کی ایک بڑی دوا ساز کمپنی ڈاکٹروں کو مسلسل 20 سالوں تک رشوت دیتی رہی، تاکہ انکی دواٸیں زیادہ سے زیادہ صحت مند لوگوں کو دی جاٸیں۔ شاید وہ جانتے تھے کہ اگر ان کی دواٸیں صحتمند لوگوں کو بھی دی جاٸیں گی تو کچھ ھی دنوں میں بہت سے لوگ ان پر منحصر ھو جاٸیں گے۔ان کی دواٸیوں کے بغیر لوگوں کا کام نہیں چلیگا۔پورے 20 سال بعد ان کی یہ”ناپاک سازش“ بے نقاب ھوتی ھے اور 20 جولاٸی 2010 میں لوگوں کواس بات کا پتہ چلتا ھے۔اسوجہ سے اس کمپنی کو 16 ھزار کروڑ روپیہ سے بھی زیادہ کا جرمانہ دینا پڑا۔

   سوال یہ پیدا ھوتا ھیکہ کیاصرف جرمانہ بھر دینے سے ھی وہ اس”اخلاقی جرم“ سے بَری ھو گٸے، جو انھوں نے انسانی برادری کے خلاف کیا تھا؟

   صرف یہی ایک مثال نہیں ھے، جب دوا کمپنیوں نے اپنا منافع کمانے کے مقصد کو سب سے آگے رکھتے ھوٸے باقی دوسری چیزوں و ذمہ داریوں کو بالاٸے طاق رکھ دیا ھو۔ان کا کسی کی بھی”صحت“ سے کوٸی لینا دینا نہیں ھے۔وہ صرف بیماریوں کو بڑھاوا دینا چاھتے ھیں۔ وہ چاھتے ھیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ بیمار پڑیں اور تا عمر بیماری کی چپیٹ میں مبتلا رھیں۔اسی میں تو ان کا منافع اور فاٸدہ ھے، کمپنیاں چلیں گی تو وہ مالا مال ھونگے۔

  میں مثال کے طور پر کچھ مرض کے متعلق بتاتاھوں:-

 *  ڈاٸبیٹیز (DIABETES): 1997 تک یہ مانا جاتا تھا کہ ”فاسٹنگ بلڈشوگر“ 140 mg/dl ھے تو آپ DIABETIC ھو سکتے ھیں۔ لیکن 1997 میں ڈبلیو ایچ او (world health organisation) نے اسے revise کرنےکیلٸے ایک کمیٹی بناٸی، جس کا نام:-

 Expert Committee On Diagnosis & Classification Of Diabetes“

 رکھا۔اس کمیٹی نے یہ رپورٹ دی کہ اسے 140mg/dl سے کچھ کم کر دی اجاٸے، اور اس کے بعد اسے 126mg/dl کر دیا گیا۔اس کا مطلب یہ ھوا کہ راتوں رات لاکھوں کروڑوں افراد جو کل تک Diabetes کے مریض نہیں تھے، اگلی صبح کا اخبار پڑھتے ھی ڈاٸبیٹیز کے مریض بن گٸے۔ کل ملا کر دنیا کے 14 فی صدی لوگ جو Diabetic نہیں تھے وہ Diabetes کے گھیرے میں آگٸے۔ غور طلب ھے کہ WHO نے 17 لوگوں کی جو Expert committee بناٸی تھی ان میں سے 16 لوگ Diabetes کی دواٸیاں بنانے والی کمپنیوں کے ایجنٹ، مشیر اور ترجمان تھے اور ان میں سے کٸی تو ان کے ساٸنس داں بھی تھے، جنہیں باقاعدہ کمپنی کی جانب سے اجرت دی جاتی تھی۔ان کمپنیوں کے نام درج ذیل ھیں:-

Aventis pharmaceuticals,

Bristol-Myors Sqibb 

EliLilly 

GlaxoSmithkline  

Novartis

Merck 

Pfizer.

 اب سوچا گیا کہ Fasting sugar 126mg/dl سے کم ھے، تو ان کو گھیرے میں کیسے لایا جاٸے؟ تب ایک Term لانچ کیا گیا اور اس کا نام دیا گیا: ”pre-diabetic“

 یعنی ”ڈاٸبیٹیز“ سے پہلے کا Step، اور یہ کہا گیا کہ ڈاٸبیٹیز سے پہلے Fasting Blood Sugar اگر 126mg/dl سے کم ھے تو اسے pre-diabetic کہیں گے۔ یعنی اب کچھ اور لوگ اس گھیرے میں آ گٸے۔یعنی کل تک جو لوگ Diabetic نہیں تھے اب وہ Pre diabetic term کے حساب سے  Diabetic ھو گٸے۔

 * ھاٸپرٹنشن (Hypertension):

ایسا ھی کچھ ”ھاٸیپرٹنشن“ کے ساتھ بھی ھوا۔ 1977 میں ھی WHO نے ایک Panel بنایا جس کے مکھیا"

DR ALBERTO JAINCHETTI 

تھے۔ان کی مدد سے 11 لوگوں کی کمیٹی تشکیل دی گٸی-جس کا کام تھا 1997  تک Systolic Hyper tension کی حد کو 160mmhg سے گھٹا کر 140mmhg کر دیا جاٸے۔

اور Diastolic Hypertension جو 100  mmhg تھا اسے 90mmhg کر دیا جاٸے۔یعنی راتوں رات 35 فیصد لوگ جو کل تک-Hyper tension کے شکار نہیں تھے، آج اچانک Hypertension کے مریض بن گٸے۔اس”کار خیر“ کو انجام دینے والے ان 11 لوگوں کے بارے میں پتہ کیا گیا تو معلوم ھوا کہ ان میں سے 9 لوگ یا تو Hypertension کی دواٸی بنانے والی کمپنی کے ترجمان، مشیر یا ساٸنسداں ھیں یا کسی نہ کسی شکل میں اس سے جڑے ھیں۔

THE JOURNAL OF AMERICAN ASSOCIATION

کے ذریعہ یہ رپورٹ جاری کی گٸی ھے۔)

   اب سوال یہ پیدا ھوا کہ جنکا بلڈ پریشر   140mmhg سے کم ھے، انہیں گھیرے میں کیسے لیں؟ تب اسی کمیٹٕی نے ایک نٸے Term کو یہ نام دیا:

”PRE-HYPERTENSION“

یہ طے کیا گیا کہ جنکا سسٹولک بلڈ پریشر 120mmhg سے اوپر ھے اور ڈاٸسٹولک بلڈ پریشر 80mmhg سے اوپر ھے، انہیں ”PRE-HYPERTENSION“ کہہ دیں گے۔ایسا ھونے کے بعد CIEATAL TIMES نیوز پیپر کے مطابق ”دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی یا تو HYPERTENSION کا شکار ھو گٸی یا پھر PRE-HYPERTENSION کے گھیرے میں آگٸی“۔

      CHOLESTEROL :-

   ٹھیک اسی طرح اب ھم CHOLESTEROL کی بات کرتےھیں۔1998 تک کولسٹرول 240hg/dl سے اوپر چلے جانے سے HIGH کولسٹرول مانا جاتا تھا۔ لیکن 1998 میں ”ورلڈ ھیلتھ آرگناٸز یشن“ نے ” TEXAS CORONARY  ATHEROSCLEROSIS  STUDY"

نام سے ایک پینل بنایا، جس کا کام تھا کہ CHOLESTEROL LEVEL کےطریقے و ضابطےکو نٸے سرے سے پیش کیا جاٸے۔

   اسی سال 1998 میں کولسٹرول لیول کے طریقے و ضابطے کو 200hg/dl کر دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ جن لوگوں کا کولسٹرول لیول 200hg/dl سے اوپر ھے، وہ ھاٸی کولسٹرول کا شکار مانے جاٸیں گے۔ %56 لوگ جواب تک صحت مند تھے، ضابطہ بدلتے ھی ھاٸی کولسٹرول کے مریض بن گٸے۔

   OSTEOPIROSIS:-

   اسی طرح OSTEOPOROSIS کا معاملہ ھے۔ 2003 میں WHO نے نیا PANEL ”نیشنل آسٹیو پوروسس فاٶنڈیشن“

(NATIONAL OSTEOPOROSIS FOUNDATION)

بٹھایا۔ اس پینل کو بھی آسٹیوپروسس کے ضابطوں پر نٸے سرے سے غور و خوز کرنے کو کہا گیا۔ 2003 سے قبل 2.5- سے کم T SCORE  والے کو آسٹیو پوروسس کا مریض بتایا جاتا تھا، لیکن 2003 میں اس پینل نے T-SCORE کا لیول 2.5- سے گھٹا کر 2.0- کر دیا جس سے تقریباً%85 دیگر لوگ بھی آسٹیو پوروسس کےگھیرے میں آگٸے۔

   اس طرح اکثر و بیشتر امراض کی آخری حد کو کم کر دیا گیا تاکہ کثیر تعداد میں لوگ مریض بن جاٸیں۔ اور بتانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ مریضوں سے صرف اسپتالوں، فارما سیوٹیکل کمپنیوں و ان سے جڑے افراد کو ھی فاٸدہ ھوتا ھے۔

   اب آگے دیکھٸے کہ امراض کی گاٸڈ لاٸن کیسے بنتی ھے؟

   1948 میں UNO نے WHO کی بنیاد رکھی۔ جس کا کام تھا دنیا میں ھیلتھ سے جڑے اداروں و ضابطوں کو قاٸم کرنا اور انہیں اپنی بہتر حالات تک پہنچانا۔ دنیا میں جن جن امراض سے زیادہ لوگ مر رھے ھیں، WHO ان پر رسرچ کرتی ھے۔ پھرکچھ چنندہ میڈیکل یونیورسٹی جیسے: آکسفورڈ یونیورسٹی، ھارورڈ یونیورسٹی، ٹورنٹو یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی وغیرہ سے DATA & FEEDBACK لیتی ھے کہ کون سی بیماری زیادہ ”جان لیوا“ ثابت ھو رھی ھے۔اور اسی کے مطابق ”پینل“ بنایا جاتا ھے۔اکثر یہ”پینل“

     PHARMACEUTICAL COMPANIES

کے ذریعہ SPONSORED ھوتی ھیں۔ یعنی کہ ”پینل“ کے ممبران PHARMA COMPANY کے ھی EMPLOYEES ھوتے ھیں۔ اس کا مطلب یہ ھیکہ”پینل کے ذریعہ تیار کردہ GUIDELINES چاھے وہ ”ھاٸپرٹینشن“ کی ھوں یا ”کولسٹرول“ کی یا پھر ”آسٹیو پوروسس“ کی، وہ ھمیشہ دوا کمپنیوں کےحق میں ھی ھوتی ھیں۔

   ایک بار گاٸڈ لاٸنس بن جانےکے بعد انہیں ڈاکٹر تک پہنچانے کا کام یا ”پوسٹ مین“ بننے کا کام ”دوا کمپنیوں“ کے”میڈیکل ایجنٹ“ کرتے ھیں۔یا آٸے دن منعقد ھونے والی ”میڈیکل کانفرنس“ کے ذریعہ دنیا بھر میں مشتہر کیا جاتا ھے۔اور پھر ڈاکٹر انہیں ”مریضوں“ تک ، یعنی آپ تک پہنچاتے ھیں۔

   ڈاکٹروں اور ورلڈ ھیلتھ آرگنا ٸزیشن (WHO) کے بیچ ھوتی ھیں”دواکمپنیاں“۔اور کمپنیوں کا واحد ”مقصد“ ھوتا ھے- ”منافع کمانا“۔

   اگر آپ چاھتے ھیں کہ آپ کواصلیت کا پتہ چلے تو:- ”ڈاکٹروں، دوا کمپنیوں و نٸی گاٸڈ لاٸنوں“ کوبیچ سے ھٹا کر قابل اعتماد یونیورسٹیز سے سیدھا جڑنے کی کوشش کریں۔

*کسی بیماری کو تیار کر کے کیسے بڑھاوا دیا جاتا ھے؟*

   دوا ساز کمپنیوں کا ”ڈاکٹروں“ سے”تعلق“:-

   *دواسازکمپنیاں ڈاکٹروں کو اپناصلاح کار یا ترجمان کے طور پر بلاتی ھیں۔

   *ڈاکٹروں کے ریسرچ پیپرس کو یہ دوا ساز کمپنیاں ھی اسپانسرکرتی ھیں۔اس کی اشاعت میں پیش۔پیش رھتی ھیں۔

   ڈاکٹروں کے ذریعہ دوا سازکمپنیوں کو     

                       صلاح:-

  * نٸی دواٶں کے استعمال میں ان کی مدد کرتے ھیں۔

  *مارکیٹنگ کے معاملے میں انہیں صلاح دیتے ھیں۔

  *دیگر ماھرین بھی انہیں دواٶں کی لاٶنچنگ میں تعاون کرتے ھیں۔ اور FDA سے ان نٸی دواٶں کی منظوری لینے کیلٸے بھی کمپنیوں کا تعاون کرتے ھیں۔

  *کچھ ڈاکٹروں کا ”پیسہ“ بھی اِن کمپنیوں میں لگا ھوتا ھے۔اسلٸے وہ بھی وقتاً فوقتاً انہیں صلاح اور تعاون دیتے رہتے ھیں۔

   "بیماریوں کو متعارف کرنا“:-

  * دو اساز کمپنیاں ایک میٹنگ آرگناٸز کرتی ھیں، جہاں”ماھرین“ امراض کا ”نیا تعارف“ دینے کیلٸے تیار ھوتے ھیں۔

  * پرانے امراض کو پھر سے جدید پیراٸے میں متعارف کیا جاتا ھے اور ماھرین ان کے علاج کیلٸے نٸی گاٸڈ لاٸنس

 تحریرکرتے ھیں۔ جن کے توسط سے دیگر ڈاکٹروں کو ذہن نشیں کرایاجاتا ھے کہ زیادہ سے زیادہ دواٶں کا استعمال کیسے کیا جانا چاھٸے؟

     کسی بھی ”مرض“ کو مشتھر کرنا:

  * گاٸڈ لاٸنس لکھنے والوں سمیت کمپنی کے ماھرین بھی ڈاکٹروں کو ”مرض“ سے متعلق نیا تعارف و دیگر نٸی معلومات فراھم کراتے ھیں.

کاپی پیسٹ





تبصرے

Raaj Wellfair Matab

قرشی لیسٹ 1 سے 75 تک

قرشی لیسٹ 76 سے 150 تک