RWM21122023 حکیم شجاع احمد طاہر (طبی رسالے)
حکیم شجاع احمد طاہر
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ڈیرہ غازیخان کا خطہ تاریخی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ نواب غازی خان میرانی کے نام سے منسوب یہ شہر ڈیرہ غازی خان کوہ سلیمان کے بلوچ قبائل کا ہیڈکوارٹر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے آنے والے مسلمان مہاجرین بھی کافی تعداد میں اس شہر میں آن آباد ہوۓ۔ اس طرح سے یہ شہر دو ثقافتوں کا مسکن ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ اور مسلمان مہاجرین کے علماء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انسان اس خطہ کے حسن میں اضافہ کرتے رہے۔ ان مختلف ثقافتوں کے خوبصورت انسانوں میں ایک نام حکیم شجاع احمد طاہر صاحب کا ہے۔
حکیم شجاع احمد طاہر صاحب کے والد محترم جناب چوہدری منیر احمد صاحب ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر کے آۓ تھے اور شجاع آباد ضلع ملتان میں سکونت پذیر ہوۓ۔
چوہدری منیر احمد صاحب کے گھر 1959ء میں ایک اولاد نرینہ پیدا ہوئی جن کا نام شجاع احمد طاہر رکھا گیا۔ اور اس پیدائش کے تھوڑے عرصے کے بعد فیملی شجاع آباد سے ملتان شفٹ ہو گئی
آپ کا بچپن ملتان جیسے قدیم اور تاریخی شہر میں گزرا ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول نواں شہر ملتان سے حاصل کی اور 1975ء میں اسی ادارے سے میٹرک پاس کیا۔
پرائمری تعلیم کے دوران چوڑی سرائے چوک بازار ملتان میں مدنی دوا خانہ حکیم محمد اقبال صاحب کا پنسار کا کام تھا اس زمانے میں عطار کہا جاتا تھا۔ تو حکیم شجاع احمد طاہر صاحب کو سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ حکمت اور پنسار میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ اس دوران انہوں نے ادویات ، عرقیات، مربہ جات اور خمیرہ جات وغیرہ بنانا سیکھ لیے۔
میٹرک کرنے کے بعد حکیم شجاع احمد طاہر صاحب حکمت سیکھنے کی غرض سے ڈیرہ غازی خان تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر حکیم علاءالدین صاحب جو کے اپنے وقت کے بہت بڑے اور حاذق طبیب تھے جو کہ تکمیل الطب طبیہ کالج لکھنو سے فارغ التحصیل تھے کی شاگردی اختیار کی۔ حکیم علاءالدین صاحب سیلانی طبیعت کے مالک تھے۔ مختلف نوابوں اور بڑے لوگوں کے علاج کی خاطر نگر نگر سفر پر جاتے رہتے تھے اور ان کے ساتھ حکیم شجاع احمد طاہر صاحب کو بھی مختلف علاقوں اور لوگوں کو دیکھنے اور سیکھنے کا موقع ملا
1975ء سے 1977ء تک حکیم علاءالدین صاحب کے ساتھ رہے۔ 1977ء کے آخر میں حکیم علاءالدین صاحب سے رخصت لے کر حکیم جان محمد صاحب کی شاگردی اختیار کر لی اور تقریباً بیس سال 20 ان کی شاگردی میں رہتے ہوئے علم طب پر کمال مہارت حاصل کی۔
1990ء میں حکیم شجاع احمد طاہر صاحب نے باضابطہ طور پر طبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسلامیہ طبیہ کالج ملتان میں داخلہ لیا۔ حصول تعلیم کے دوران ہی 1993ء میں حج کی سعادت حاصل کی اور یوں ایک سال کی تاخیر سے 1995ء میں فاضل الطب والجراحت کی ڈگری امتیازی حیثیت سے حاصل کی۔
اس دوران انھوں نے حکیم جان محمد صاحب کے طبی کتب کے ذخیرہ سے کافی استفادہ حاصل کیا۔ حکیم صاحب کے علم پر دسترس کی بدولت حکیم جان محمد صاحب نے اپنی زندگی میں انہیں اپنا جانشین مقرر کر کے انہیں اپنی مسند پر بیٹھا دیا۔
اکتوبر 1997ء میں حکیم جان محمد صاحب کی وفات کے بعد انہوں نے اپنا الگ دوا خانہ مطب ابن سینا کے نام سے بنایا جس پر حکیم صاحب کے دو صاحبزادے حکیم رانا محمد ارسلان اور حکیم رانا محمد فیضان معاونت فراہم کرتے ہیں۔ دونوں صاحبزادگان اسلامیہ طبیہ کالج ملتان کے فارغ التحصیل ہیں اور اپنے فن میں کمال مہارت رکھتے ہیں اور اپنے والد محترم کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں اور آپ کے مشن خدمت خلق کو آپ کی موجودگی میں جاری رکھا ہوا ہے۔ حکیم رانا محمد ارسلان مطب پر نسخہ نویسی اور دوا سازی میں معاونت کرتے ہیں تو حکیم رانا محمد فیضان پنسار میں معاونت فراہم کرتے ہیں جبکہ حکیم صاحب کی ایک بیٹی ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہے۔
حکیم شجاع احمد طاہر صاحب علم طب پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈیرہ غازی خان میں حکیم و ہومیوپیتھک ڈاکٹر علامہ رب نواز چشتی صاحب کے ساتھ مل کر طبی رسالہ برکات طب شائع کیا جس میں طبی مضامین، نسخہ جات، اقوال، اور انٹرویو وغیرہ شامل کرتے تھے۔ یہ رسالہ پورے ملک اور انڈیا تک بھیجا جاتا تھا اس طرح سے وہ انڈیا کے حکماء سے بھی رابطے میں رہے۔
اس کے علاوہ ملک بھر کے معروف طبی رسائل ماہنامہ الحکمہ، ضیاء الحکمہ، راہنماۓ صحت، ہمدرد صحت، مرحبا صحت، قومی صحت، طبی مجلہ وغیرہ میں ان کے طبی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔
طبی خدمات میں حکیم صاحب کا ایک اور عظیم کارنامہ ڈیرہ غازی خان کی سر زمین پر 2000ء میں طبی میلہ کا انعقاد ہے جو کہ اپنی مثال آپ ہے۔ علم طب کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے اس میلہ کا اہتمام کیا جو کہ تین روز جاری رہا۔ جس میں ملک بھر کے طبی ادارے اور شخصیات نے شرکت کی۔ جس میں قرشی، ہمدرد، اشرف، مرحبا، دوا خانے اور لیبارٹریز شامل ہیں۔ اس طبی میلہ میں 3000 تقریباً مریضوں نے علاج معالجے کی سہولت حاصل کی۔
حکیم شجاع احمد طاہر صاحب اطباء کی ملک گیر طبی تنظیم پاکستان طبی کانفرنس کے مرکزی ممبر مجلس عاملہ کے رکن ہیں۔ طبی حوالے سے وہ پورے ملک میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ملک بھر میں منعقد شدہ طبی سیمینار اور کانفرنسوں میں صدارت کر چکے ہیں اور اس کے علاوہ طبی حوالے سے بیرون ملک ایران عراق شام دبئی، سعودی عرب جیسے ممالک میں سفر کر چکے ہیں۔
حکیم شجاع احمد طاہر صاحب علم مفردات اور جڑی بوٹیوں پر کامل عبور رکھتے ہیں ان کے اس علم کی بدولت انہیں 2016ء میں بین الاقوامی جڑی بوٹی کانفرنس میں بطور مہمان خاص طبیب مدعو کیا گیا۔ جس میں جڑی بوٹیوں پر کام کرنے والے اور ان سے ادویات بنانے والے اداروں اور شخصیات نے شرکت کی۔
حکیم شجاع احمد طاہر صاحب ایک عظیم حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دین دار شخصیت بھی ہیں۔ ان کی دینی خدمات کی بدولت انہیں ڈیرہ غازی خان کی امن کمیٹی کا ممبر بھی بنایا گیا جس میں انہوں نے خدمات سرانجام دیں۔
حکیم صاحب ایک باکردار اور باعمل انسان ہیں صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ اس کے علاوہ انتہائی خوش اخلاق اور مہمان نواز انسان ہیں۔ ان کے مطب پر ہر ایک مکتبہ فکر کے لوگ بطور مہمان آتے رہتے ہیں اور حکیم صاحب کا دولت خانہ ہر آنے والے مہمان کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہتا اور خدمت خلق کے زیور سے آراستہ رہتا ہے۔
حکیم شجاع احمد طاہر صاحب ایک کامل طبیب اور علمی شخصیت ہیں۔ اس طرح ان کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ تمام تر طبی ادارے ان کی طبی خدمات پر ان کو اسناد اور ایوارڈز سے نواز چکے ہیں۔ علم و طب کا یہ روشن ستارہ ہمارے شعبہ طب اور ہمارے وسیب کا نام روشن کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ حکیم صاحب کی توفیقات میں اضافہ فرماۓ اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم و دائم رکھے۔ شعبہ طب اور نئے آنے والے حکماء کرام کا یہ فریضہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان کی سرزمین کے عظیم سپوت کی علمی وطبی خدمات کو کتابی شکل میں محفوظ کر کے ہمیشہ زندہ رکھے۔ اور ان کا نام تاریخ کے اوراق میں قائم و دائم رہے۔ تاکہ آئیندہ نسلیں ان کے علم و حکمت کے موتیوں سے مستفید ہوتی رہے۔
تحریر : حکیم خلیل الرحمن
حافظ شفاء خانہ منگڑوٹھہ شرقی تحصیل تونسہ شریف
نگاہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رخت ِسفر میرِ کارواں کے لیے
تبصرے