RWM18122024 HAKEEM JAMAL KHAN حکیم اجمل خان
حکیم اجمل خان
اجملی دواخانہ کے بانی۔
1911ءمیں حکیم اجمل خان یورپ گئے۔ اس سفر کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یورپی ممالک میں طبی ترقیوں کا مطالعہ کر کے اس کی روشنی میں ہندوستان میں طب یونانی کے فروغ کے لئے کام کیا جائے۔
لندن پہنچ کر وہ چیئرنگ کراس ہسپتال گئے۔ڈاکٹر سٹینلے بائڈ، لندن کے چیئرنگ کراس ہسپتال کے سینئر سرجن تھے۔ تشخیص مرض اور فن سرجری دونوں میں ان کا اپنا مقام تھا۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری وہاں ہاﺅس سرجن تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے حکیم اجمل خاں کا ڈاکٹر بائڈ سے تعارف کرایا۔
ڈاکٹر بائڈ کی دعوت پر حکیم صاحب ان کی کلینیکل سرجری کی کلاس میں بھی گئے۔ یہ کلاس طلباءکی عملی تعلیم کے لئے تھی اور ہفتہ میں دو بار ہسپتال کے کسی نہ کسی وارڈ میں ہوا کرتی تھی۔
جب حکیم صاحب کلاس میں پہنچے تو ڈاکٹر بائڈ ایک مریض کے مرض کے بارے میں طلباءکو سمجھا رہے تھے۔ ان کی رائے میں مرض کی وجہ پتہ پرورم تھا۔ انہوں نے حکیم صاحب سے کہا کہ وہ بھی مریض کا معائنہ کریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ معائنے کے بعد حکیم صاحب نے کہا کہ مریض کی آنتوں کے ابتدائی حصے پر پرانا زخم ہے، جس کے باعث داد کی تکلیف، یرقان اور حرارت ہے۔ ڈاکٹر بائڈ نے ان سے کہا کہ کل اس مریض کا آپریشن ہو گا، آپ ضرور آیئے۔ پھر ہنس کر بولے: یہ طب یونانی اور انگریزی طب کا امتحان ہے۔ دوسرے روز مریض کا پیٹ چاک کرنے پر حکیم صاحب کی تشخیص صحیح نکلی۔ ڈاکٹر بائڈ نے نہایت خوش دلی سے حکیم صاحب کو ان کی صحیح تشخیص پر نہ صرف مبارک باد دی، بلکہ انہیں اور ڈاکٹر مختار انصاری کو اپنے گھر ڈنر پر مدعو کیا۔ وہاں ڈاکٹر بائڈ نے اپنی بیوی سے، جو خود بھی سینئر سرجن تھیں، حکیم اجمل خاں کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں ڈاکٹر انصاری کے ہم وطن، جنہوں نے تشخیص کے مقابلے میں مجھے شکست دی ہے!پیرس میں وہ ایک ڈاکٹر سے ملے۔ تعارف ہونے پر اس نے بڑی حقارت سے کہا کہ جس طب میں تشخیص کا سب سے بڑا ذریعہ صرف نبض ہو وہ کیا طب ہو سکتی ہے۔
پھر زور دے کر کہا کہ اگر آپ کو اپنی تشخیص پر اتنا ہی اعتماد ہے، تو ذرا میرے ایک مریض کو دیکھئے، چنانچہ دوسرے روز ایک مریضہ حکیم صاحب کے ہوٹل میں لائی گئی۔ اسے ایک سال سے یہ شکایت تھی کہ اس کی ٹانگیں سکڑ گئی تھیں اور پیٹ میں درد ہوا کرتا تھا۔ ایکسرے اور دوسرے ذرائع تشخیص مرض کا پتہ لگانے میں ناکام ہو چکے تھے۔کسی ڈاکٹر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مرض کیا ہے۔ تشخیص مرض کے لئے حکیم صاحب نے اس خاتون سے بہت سے سوال کئے، تو معلوم ہوا کہ و ہ ٹینس بہت کھیلا کرتی تھی اور اسے گھڑ سواری کا بھی بہت شوق تھا۔ حکیم صاحب نے سوچ بچار کے بعد اسے ایک پڑیا میں دوائی دی اور کہا کہ وہ اسے 1/4 رتی روزانہ مکھن میں ملا کر کھائے۔فرانسیسی خاتون اس ذرا سی پڑیا اور دوائی کی مقدار پر بے حد حیران ہوئی، لیکن پندرہ روز بعد وہ اپنے پاﺅں پر چل کر اُن کے پاس آئی، حالانکہ آٹھ مہینے سے وہ اس قابل نہیں تھی۔
حکیم صاحب نے بتایا کہ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا۔ میرے ذہن میں یہ آیا کہ کیونکہ مریضہ ٹینس کھیلتی اور گھڑ سواری کرتی تھی، اس لئے ممکن ہے کہ اس کی کسی آنت میں کسی جھٹکے کی وجہ سے گرہ پڑ گئی ہو۔ ایسے مریض میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا، اس لئے مَیں نے اسے ایسی دوائی دی جو آنتوں میں کھجلی پیدا کرے۔ وہ دوا بہترین ثابت ہوئی۔ آنت کی گرہ کھل گئی اور متعلقہ اعضا اپنا کام کرنے لگے۔ اس علاج سے وہ فرانسیسی ڈاکٹر اتنا متاثر ہوا کہ حکیم صاحب سے گھنٹوں طب یونانی کے بارے میں گفتگو کرتا رہا۔ اس نے ان کے اعزاز میں ایک ڈنر بھی دیا، جس میں پیرس کے بڑے بڑے ڈاکٹر شریک ہوئے۔ یہ تھے حکیم اجمل خاں۔ طب یونانی میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے۔ آج بھی پاکستان میں ہر جگہ ”دوا خانہ حکیم اجمل خاں“ احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
حکیم صاحب کی شہرت ایسی تھی کہ سمر قند و بخارا تک کے لوگ علاج کے لئے آتے اور شفا یاب ہو کر جاتے تھے۔ غریب امیر سب کو یکساں توجہ سے دیکھتے اور بغیر کسی فیس کے۔حکیم صاحب کے مزاج میں کچھ شوخی بھی تھی۔ ایک بار ایک شخص دمہ سے ہانپتا کانپتا آیا۔ جیب سے پڑیا نکالی اور بولا:حکیم صاحب، میرے ساتھ بہت ہو گئی۔ آج میں سنکھیا کھاﺅں گا اور اس در پہ جان دے دوں گا۔ شوخی سے بولے: سنکھیا کھا کے کیوں مرتا ہے۔ مرنا ہی ہے تو دوا کھا کے مر.... پھر اس کا علاج کیا اور اس کا دمہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔
تبصرے