کورونا وائرس ’’واقعی میں‘‘ مردوں کو بانجھ کرسکتا ھے۔
کورونا وائرس ’’واقعی میں‘‘ مردوں کو بانجھ کرسکتا ہے!
کورونا وائرس ’’واقعی میں‘‘ مردوں کو بانجھ کرسکتا ہے۔
کورونا وائرس سے مرنے والے مردوں کے پوسٹ مارٹم سے ان کے تولیدی اعضاء بھی خلوی پیمانے پر متاثر پائے گئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
کورونا وائرس سے مرنے والے مردوں کے پوسٹ مارٹم سے ان کے تولیدی اعضاء بھی خلوی پیمانے پر متاثر پائے گئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
ٹیکساس: چوہے جیسے جانوروں ’’ہیمسٹرز‘‘ پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کووِڈ 19 کی عالمی وبا کا باعث بننے والا کورونا وائرس مردانہ تولیدی نظام کو متاثر کرکے مردانہ بانجھ پن کی وجہ بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ’’ہیمسٹرز‘‘ کو انسان سے ’’مشابہ ترین‘‘ جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات کوئی طبّی تحقیق پہلے ان پر (یا انہی جیسے دوسرے جانوروں پر) آزمائی جاتی ہے جس میں مثبت نتائج کے بعد انسانی تجربات کا آغاز کیا جاتا ہے۔
کووِڈ 19 کے حوالے سے بھی ہیمسٹرز بہت مفید ثابت ہوئے ہیں کیونکہ تحقیق کے دوران جو علامات ان میں پیدا ہوئیں، وہی علامات بعد ازاں انسانوں میں بھی دیکھی گئیں۔
اب تک مختلف اسپتالوں اور طبّی مراکز میں کووِڈ 19 سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوجانے والے ایسے کئی مرد مریض آچکے ہیں جنہیں اپنے فوطوں (testes) کے مقام پر تکلیف کی شکایت تھی یا پھر ان میں مخصوص مردانہ ہارمون ’’ٹیسٹوسٹیرون‘‘ بننا تقریباً بند ہوچکا تھا۔
علاوہ ازیں، کورونا وائرس سے مرنے والے مردوں کے پوسٹ مارٹم سے بھی ان کے فوطے خلوی پیمانے پر متاثر پائے گئے تھے۔
ہیمسٹرز پر یہ تازہ تحقیق یونیورسٹی آف ٹیکساس، امریکا میں کی گئی ہے جس کے نتائج ریسرچ جرنل ’’مائیکرو آرگینزمز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئے ہیں۔
ناول کورونا وائرس (سارس کوو 2) سے ہیمسٹرز کے متاثر ہونے کے پہلے ایک ہفتے میں یہ وائرس ان کے فوطوں میں دیکھا گیا، تاہم یہ بتدریج وہاں سے ختم بھی ہوگیا۔
اس تحقیق سے یہ تو معلوم ہوگیا ہے کہ کورونا وائرس جہاں پھیپھڑوں اور نظامِ تنفس کے ساتھ دیگر جسمانی نظاموں کو متاثر کرتا ہے، وہیں یہ انسانی فوطوں تک پہنچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، لیکن اس بارے میں اب بھی بہت سی باتیں ہمارے علم میں نہیں۔
’’کورونا وائرس سے مردانہ تولیدی نظام کیسے متاثر ہوتی ہے؟ یہ دریافت اس سمت میں پہلا قدم ہے، لیکن ابھی پوری تصویر ہمارے سامنے آنا باقی ہے،‘‘ ڈاکٹر رافیل کرون کامپوس نے کہا، جو اس تحقیق مقالے کے مرکزی مصنف بھی ہیں۔
تبصرے